
سدرہ یا بیری کا ذکر قرآن مجید میں چار مرتبہ آیا ہے یعنی سورة سبا میں ایک بار سورة النجم میں دو بار اور سورة الواقعہ میں ایک بار جبکہ سورۃ سبا میں بیان کردہ واقعہ کا تعلق اس سرزمین سے ہے اور دو کا حوالہا سانوں کی سرحد سے متعلق ہے اور ایک کا ذکر جنت کے نباتات کے بیان میں آیا ہے۔قرآن پاک کی سورة النجم کی آیت نمبر 13تا18 میں ارشاد ربانی ہے کہ:ترجمہ:”اب کیا اس چیز پر اس سے جھگڑتے ہوئے وہ آنکھوں سے دیکھتا ہے اور ایک مرتبہ پھر اس نے سدرة انتلی کے پاس اس
کو اترتے دیکھا جہاں پاس ہی جنت الماوئی ہے۔ اس وقت سدرہ پر چھارہا تھا اور جو کچھ کہ چھارہا تھا نگاہ نہ چندھیائی نہ حد سے تجاوز ہوئی اور اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں ‘‘سورۃ سبا کی آیت نمبر 16 میں رب کریم روف الرحیم نے فرمایا ہے کہ:
ترجمه:”آخر ہم نے ان پر بند توڑ کر سیلاب بھیج دیا اور ان کے پیچھے دو باغوں کی جگہ دو اور باغ انہیں دیئے جن میں کڑوے کسیلے چل ( نمط ) اور جھاو ( ائل) کے درخت تھے اور بھی تھوڑی کا بیریاں (سدر)“ سورة الواقعہ کی آیت 27 تا 33 میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ:ترجمہ:’اور دائیں بازو دانے دائیں بازو والوں کی خوشی کا کیا کہنا وہ بے خار بیر یوں (سدر)
اورچڑھے ہوئے کیلوں اور دور تک پھیلی ہوئی چھاؤں اور ہر دم رواں دواں پانی اور بھی ختم ہونے والے اور بے روک ٹوک ملنے والے بکثرت پھلوں اور اونچی نشست کا ہوں میں ہوں گے۔
قرآن پاک میں چارتلف آیات میں سدرکانام لیا گیا ہے مگر ان میں سورة سبا کے حوال کا تعلق ہماری زمین سے ہے۔ باقی روحوالے انسانوں کی سرحد سے متعلق ہیں جبکہ چوتھے کاذکر جنت کے نباتات کے بیان میں آیا ہے۔
مولانا شبیر احمد عثمانی نے سورة النجم کیتفسیر بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سدرة نتھی کے بیری کے درخت کو دنیا کی بیریوں پر قیاس نہ کیا جائے۔ الہ ہی جانتا ہے کہ وہ کس طرح کی پیر کی ہوگی۔ مولانا عبد الماجد دریابادی لکھتے ہیں کہ سدرة انتی اسی عالم اور اس عالم کے درمیان ایک نقطه اتصال ہے۔ جہاں سے
ملائکہ عالم بالا کے احکام زمین پر لاتے ہیں اور یہاں کے اعمال مسعود وہاں تک پہنچاتے ہیں ۔ مولانا کے خیال میں آسانوں کے اوپر درخت اور بیری کے درخت کوتسلیم کرنے میں کوئی دشواری نہ ہونی چاہئے۔ کیونکہ دنیا کے نباتات سمیت نہ جانے کتنی چیزوں کا جنت میں ہوا مسلم ہے۔ البتہ جنت اور ان کی ہر نعمت دنیا کی نعمتوں سے مشابت ہوگی لیکن پھر بھی بہت کچھ مختلف ہوگی۔
تفسیر حقانی میں سدر کے بارے تحریر کیا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بار دیگر سدرة انتلی کے پاس دیکھا اور سدر جو جنت الماوی میں ہے وہ کوئی دنیا کا درخت نہیں ہے۔
مولانا حقانی لکھتے ہیں کہ جس طرح حضرت موی علیہ السلام کے لئے ایک درخت پرتھلی ہوئی تھی اسی طرح آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو جنت الماوئی میں اس درخت (سدر) کی صورت میں ملی ہوئی جو تمام ارواح کی جڑ ہے۔ لغات القرآن میں سدرة انہی کو انسانی فہم و ادراک کی آخری سرحد پر ایک درخت کہا ہے۔ جہاں آنخضرت کو فیض ربانی اور انا م رانی سے مخصوص فرمایا گیا۔ مولانا مودودی سورة انجم کی تفسیر بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ
سدرة انتی وہ مقام ہے جہاں حضرت جبریل علیہ السلام کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دوسری ملاقات ہوئی۔ ہمارے لئے یہ جانا مشکل ہے کہ اس عالم مادی کی آخری سرحد پر وہ بیری کا درخت کیسا ہے اور اس کی حقیقی نوعیت و کیفیت کیا ہے۔ بہر حال وہ کوئی ایسی چیز ہے جس کے لئے انسانی زبان میں سدرہ سے زیادہ موزوں لفظ اللہ تعالی کے نزدیک اور کوئی نہ تھا۔
احادیث میں بھی سدر کا تذکرہ ملتا ہے۔ ابوداؤد میں کتاب الادب کے تحت باب فی قطع اسد میں ایک حدیث بیان کی گئی ہے جس میں تحریر ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو خش سند کا درخت کاٹے گا الله اس کے سر کو اوندها کر کے جہنم میں گرا دے گا۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں سمندر کی لکڑی کے دروازے
اور چوکٹوں کا بنانا ایک ایک بدعت کہا گیا ہے جس کو لوگ عراق سے لائے تھے۔ اس بدعت کے من میں جناب ہشام بن عروہ نے فرمایا کہ میں نے سنا کہ مکہ میں کوئی کہتا تھا کہلسنت کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سدرکا درخت کاٹنے والوں
عرب میں بیری کی تین راتیں عام طور پر پائی جاتی ہیں۔ ایک تو وہ بیری کا درخت جو ہندوستان میں پایا جاتا ہے۔ دوسراوه بیری جوعرب کے ریگستانی علاقہ میں نسبتا خوبصورت پودا سمجھا جاتا ہے۔ گویا ایک چھوٹا درخت ہوتا ہے۔ تیسری قسم وہ ہے جس کی بابت روایت ہے کہ اس کے کانوں کا تاج حضرت عیسی علیہ السلام کے سر پر رکھا گیا تھا۔
بیری کی بیٹیوں میں خار دار ہوتی ہیں اور کھانے والے پھل کا ذریہ ہیں ۔ گراس کے پھل کا مقابل خصوصیات اور مزہ کے اعتبار سے ان پھلوں سے نہیں کیا جاسکتا جن کا ذکر قرآن کریم میں اللہ کی جانب سے دی گئی نعمتوں کے طور پر ہوا ہے جیسے اور انار انگور زیتون اور انجیر وغیرہ۔
کالایی . ص. ر م ن ق . لیکن عاريا فرنیچر بنانے کے لئے موزوں نہیں بجھی جاتی ہے۔ اور بیری۔ ذکر کی گئی تینوں اقسام کی بیری کے پھل خوش ذائق تو ہوتے ہیں لیکن ان کا شمار بہترین پھلوں میں نہیں کیا جاتا ہے۔ اسی لئے تجارتی طور پر بیری کے باغات بہت کم کم ہی ملتے ہیں۔ البتہ ان درختوں کو کانوں کی باڑھ کے طور پر تو لگایا جاسکتا ہے لیکن کیا علاقہ کو خوش منظر بنانے کے لئے اس کا لگایا جانا مناسب نہیں سمجھا جاتا ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ سدراگر بیری نہیں تو پھر کون سا درخت ہے۔ ہوسکتا ہے کہ سمندر کا اشارہ شام و لبنان کے اس درخت کی طرف ہو جس کو عربی میں ارز الرب ارز البنان با تجرة اللہ کہتے ہیں اور زمانہ قدیم میں سدر کے ہم وزن ناموں سے روم اور یونان میں جانا جاتا تھا۔ لبنان کا یہ درخت اپنے جاہ و جلال قد و قامت نیز خوبصورتی اور خوشبودار لکڑی کی بنا پر عربی میں نہیں بلکہ ساری دنیامیں
حسین ترین درخت سمجھا جاتا تھا۔ اس کا ذکر حضرت سلیمان علیہ السلام حضرت موسی علیہ السلام حضرت عیسی علیہ السلام اور دوسرے مبروں نے اپنے ارشادات میں بڑے ادب کے ساتھ کیا ہے اور اس کی عظمت بیان فرمائی ہے۔
سدر کی لڑی میں اتنی چمک اور خوشبو ہوتی ہے کہ اس سے بنی عبادت گاہیں نہایت معطر اور صاف ستھری رہتی تھیں اورتقریبا چارسوسال تک ان پر موسم کا کوئی اثر نہ ہوتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ فرعونی دور میں لبنان اور شام کے س ر کے جنگلات سے اتنی زیادہ لکڑی کاٹ کر مصر لے جائی گئی کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے دور سے قبل ہی وہاں اس کی کیا محسوس کی جائے گی لہذا سندر کے درختوں کا ایک نا مناسب عمل تصور کیا جانے لگا۔