
نامور مسلم سائنس دانوں نے علم و دانش کے اسلامی دور میں جو ساتویں صدی سے تیرھویں صدی عیسوی تک پھیلا هوا هے ، سائنس میں جو عظیم الشان کارنامے سر انجام دیے ہیں ۔ ان میں زمین کے گھیر کی پیمائش کو خاص اهمیت حاصل هے. یه پیمائش خلافت عباسیہ کے عام پرور خليفه مامون رشید کے عہد میں اس کے حکم سے کی گئی تھی ۔ اس سے پہلے اگرچه یونانی اور هندی دانشوروں نے بھی زمین کے گھیر کو ناپنے کی کوشش کی تھی ، لیکن چونکه آن کے آلات گھٹیا درجے کے تھے اس لیے ان کی پیمائشیں اصل سے بہت زیادہ غلط تھیں مگر مسلم سائنس دانوں کا کمال یه
هے که انهوں نے بارہ صدیاں پیشتر زمین کے گھر کی جو قمیت نکالی وه موجودہ زمانے کی پیدائش سے حیرت انگیز طور پر مطابقت رکھتی ھے ۔
زمین کے گھیر کو ناپنے کا طريقه ‘ جسے پہلے یونانیوں اور هند یوں نے اور بعد میں مسلمانوں نے استعمال کیا ، نظری طور پر بہت ساده تھا ۔ اس طریقے کے مطابق کسی وسیع میدان کے ایک منتخب مقام پر قطب ستارے کی زاویائی بلندی ناپی جاتی تھی۔ اس کے بعد سائنس دان شال کی طرف چلتے اور تھوڑے تھوڑے فاصلے پر اس بلندی کی مزید پیمائش لیتے جاتے،
یہاں تک که وه ایسے مقام پر پہنچ جاتے جهاں پر قطب ستارے کی زاویائی بلندی پہلے سے بقدر ایک درجه زیاده هوتی . اب پہلے اور دوسرے مقام کے درمیان فاصلے کو ناپا جاتا . به زمین کے گھیر کی ایک ڈگری کی پیمائش
تھی ۔ اسے ۳۰۰ کے ساتھ ضرب دینے سے زمین کا پورا گھی نکل آتا تھا ۔ اس طریقے سے صحیح جواب نکالنے کے لیے ضروری هے که قطب ستارے کی بلندی ناپنے کے لیے جن آلات سے کام لیا جائے وہ نہایت صحیح هوں ۔ کیونکہ اگر ان آلات کے ناقص هونے کے باعث ایک ڈگری کی پیدائش میں دس بارہ میل کا بھی فرق پڑ جائے تو وہ .36 کے ساتھ ضرب کھا کر اصل جواب میں مزاروں میل کی غلطی ڈال سکتا هے. یونانیوں اور هنديوں میں بنیادی عیب یه تھا کہ ان کی پیمائشکے وہ آلات بها ثش ناقص تھے جن سے زاویائی بلندی تای جاتی تھی ، اس لیے ان کے جواب اصل سے بہت زیاده غلط نکلے تھے ۔
یونانی دور میں زمین کے گھیر کی رہائش ارسطو نے چوتھی صدی قبل مسیح میں ، ارتسطانیس نے ۲۹۵ قبل مسیح میں پاسي دانيوس نے ۵۱ قبل مسیح میں اور بطلیموس
نے ۱۵۱ع میں کی تھی ۔ یونانی سائنس دان فاصلے کی پیمائش جس پیمانے سے کرتے تھے وہ استادیا کہلاتا ہے ۔ ایک استاديا موجودہ زمانے کے ۰۰۹ فٹ اور ان کے برابر ہوتا تھا ۔زمین کے گھیر کی اصل پیمائش جسے موجودہ زمانے میں صحیح مانا جاتا ھے ۸۵۸ ۲۴ ميلهے . یونانی دانشوروں نے زمین کے گھیر گی جو پیا ئشیں کیں ان کی کیفیت مندرجه ذیل نقشے سے ظاهر هے ۔
قدیم اهل هند میں سے جن هیئت دانوں نے زمین کے گھیر کی پیمائشیں کیں ان کے نام آریا بھاٹ ، برهم گیت اور بھاسکر اچاری هیں . په هندو هیئت دان فاصلے کو ناپنے کے لیے جس پانے کا استعمال کرتے تھے اسے پوجن کہتے تھے ۔ ایک یوچن و میلم فرلانگ اور 3۰8 گز کے برابر حوتا ہے
ایک فرسخ می باره هزار ذراع هوۓ تھے اور ایک فرسخ ۳ میل ۵ فرلانگ اور ۳۹ گز کے برابر هوتا تھا ۔ عهد ماموں کے هیئت دانوں کی پیمائش کے مطابق زمین کا محيط ۶۸۰۲ فرسخ تھا ۔ اس کے ۲۵۰۰۹ ميل بنتے هیں ۔ اس میں صرف ۱۵۱ میل یعنی ہء في صد کی غلطی ھے – جو نہایت معمولی
هے . په شاندار کارنامه ۸۳۰ع کے لگ بھگ جس میدان میں سرانجام دیا گیا وہ کوفے کے شمال میں تھا ۔ اس کام میں جو سائنس دان پیش پیش تھے ان کے نام یه هیں ۔
موسی بن شاکر کے تین بیٹے یعنی محمد بن موسی، احمد بن موسی اور حسن بن موسي على بن عيسي اصطرلابي خالد بن عبد الالك المرد روزی احمد بن کشیر فرغانی عباس بن سعيد جوهری . يحي بن منصور اور سند بن على – اس واقعے کے پورے دو سو سال بعد
کے لگ بھگ اسلامی دور میں دوسری بار زمین کے گھیر کی پیمائش کی گئی ۔ اب کی بار اس پیمائش کا اعزاز ایک فرد واحد کو حاصل ہوا جس کا نام ابو ریحان البیرونی تھا ۔
البیرونی کا طريقه جو اس نے علم المثاث یعنی ٹرگنوری کی مدد سے ڈالا تھا بالکل مختلف تھا ۔ اس طریقے میں پہلے زمین کا نصف قطر معلوم کیا جاتا تھا اور پھر اسے ۲” يعنی ۳۶۱۴۱۹۷۲
کے ساتھ ضرب دے کر زمین کا محيط دریافت کیا جا تا تھا – یه طريقه عملا اس جگه استعمال ہو سکتا تھا ۔ جہاں ایک وسیع میدان میں ایک بلند ٹیلا موجود هو – جب البيروني سنسکرت زبان سیکھنے اور اپنی مشہور تصنيف كتاب الہند کے لئے مواد اکٹھا کرنے کی خاطر پنجاب کے اضلاع کی سیر کر رہا تھا تو اسے اس ٹیلے پر جانے کا اتفاق هوا جو نند نا کہلاتا تھا ۔ يه ٹیلا تحصیل پنڈ دادن خان ضلع جہلم میں مرن پور پنجاب سے چند میل کے فاصلے پر واقع ہے ۔
جب البیرونی کی نگاہ اس ٹیلے پر پڑی تو چونکه اس کے ساتھ ایک چٹیل میدان تھا ۔ اس لئے اس نے اپنی پیمائشوں کے لئے اس مقام کو موزوں سمجھا اس نے پہلے اس ٹیلے کی بلندی معلوم کی پھر اس کی چوٹی پر افق کے جھکاؤ کو نایا اور پھر ٹرگنومیٹری کے ایک کامیے کی مدد سے جو اس نے اختراع کیا تھا ۔ زمین کا نصف قطر معلوم کیا جو ۱۳۶۹ ۱۲۸۵ ذراع یعنی مع۳۸ ۳۹ میل تھا ۔ اس کو ۱۳۱۹۸۲ ۳۶ کے ساتھ ضرب دینے سے زمین کا محيط ۸۰۰۳۹ ۰ے ذراع یعنی ۲۴۷۷۹ میل نکلا-
چونکه موجودہ زمانے کی تحقیقکے مطابق زمین کا محيط ۲۴۸۵۸ ميل هے اس لحاظ سے البیرونی کی پیمائش میں صرف۸ میل کی کمی ھے ۔ اور اس پیمائش میں ۳ء في صد کی غلطی ھے جو یکسر نظر انداز کرنے کے قابل ھے ۔ به امر قابل ذکر هے که مربی دور میں جب پہلے پہل سترھویں صدی میں زمین کے گھر کی پیمائش کی گئی تو اس کی قیمت ۲۲ هزار میل نکالی گئی تھی ۔ چنانچه نیوٹن کی جوانی کے زمانے یعنی ۱۹۶۵ع تک زمین
کے گھیر کو ۲۲ هزار ميل هي سمجھا جاتا تھا ۔ حالانکه اس میں ۱۴ فی صد غلطی تھی۔ نیوٹن نے اپنا مشہور قانون تجاذب ۱۹۹۵ء میں معلوم کر لیا تھا جب اس کی عمر محض ۲۳ برس کی تھی مگر جب اس
نے زمین کے گرد چاند کی گردش پر اس کا اطلاق کیا تو مشاهدات سے اس قانون کی تصدیق نه هوئی اس سے وہ اپنے قانون کے بارے میں شبے میں پڑ گیا اور اس قانون کو شائع نه کیا ۔ لیکن نیوٹن کے قانون تجاذب میں کوئی غلطی نه تھی ۔ البته اس کی تصدیق اس وجه سے نه هوتی تھی کہ وہ زمین
کے گھر کو ۲۲ هزار میل مقرر کرتا تھا ۔ سترہ سال بعد یعنی ۱۹۸۲ع میں نیوٹن کو معلوم هوا که فرانس کے ایک سائنس دان پکارڈ نے زمین کے گھر کو ناپا هے اور اسے … ر۲۵ میل قرار دیا ہے ۔ اس پیمائش
کو درست جان کر اس نے دوباره اپنا حساب لگایا تو اس کے حساب کرده کوائف مشاهدات کے مطا بق نکال جس سے اس کو اپنے نظریے پر يقين آگیا اور اس نے نظریه تجاذب کو شائع کر دیا ۔ مغربی دور میں پکارڈ کی اس پیمائش میں بھی قریبأ ء في صد کی غلطی ھے جو مامونی دور کی پیدائش میں پائی جاتی ہے ۔ اس سے ظاهر هے که زمین کے گھیر کی پیمائش میں صحت کے جس درجے تک اهل یورپ سترھویں صدی کے آخر تک پہنچے اس درجے تک اسلامی دور میں مسلمان سائنس دان کم و بیش ایک هزار برس پہلے پہنچ چکے تھے ۔
چونکه مامون رشید کے عہد کے ان مسلمان سائنس دانوں نے پہلے کرہ ارض کے ایک جز یعنی اس حصے کی پیمائش کی تھی اور پھر اس سے زمین کے کل گھیر کا حساب لگایا تھا اس لئے اسلامی دور کے ان نامور مساحوں کے اس شاندار کارنامے کا ذکر مولانا حالی نے اپنی مسس میں یوں کیا هے ۔
وہ منجار کا اور وہ کوفے کا میدان فراهم هوئے جس میں مساح دوراں کره کی سیاحت کے پھیلاۓ ساماں هوئی جزو سے قدر کل کی نمایاں–زمانه وهاں آج تک نوحه گر ھے که عباسیوں کی سبها آب کدهر هے