(Radish) مولی

(Radish) مولی

مولی ایسی سبزی ہے جس کا شمار برصغیر میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی سبزیوں میں کیا جاتا ہے۔ اس سبزی کا تعلق ان سبزیوں سے ہے جن کی جڑیں استعمال کی جاتی ہیں۔ سیاسی سبزی ہے جس کی صرف جڑ ہوتی ہے تایا شاخیں نہیں ہوئیں۔ اس

کے سبز سبز پتے براہ راست اس کی جڑ سے پھوٹتے ہیں۔ اس کی جڑ بیلن نماسرخ یا سفید رنگ کی ہوتی ہے۔ کئی جڑیں مخروی بھی ہوتی ہیں۔ اس کی جڑ قدرے کھردری گداز اورری

سے بھری ہوئی ہوتی ہے۔ جس کی لمبائی 15 سے 20 سینٹی میٹر اور موٹائی تقر بأهے . سینٹی میٹر تک ہوتی ہے۔ مولی کھانے سے بھوک بڑھتی ہے۔ خون کی گردش کو فعال بنائی ہے۔

مولی کی کئی اقسام ہوتی ہیں جن کے سائز اور رنگ بھی مختلف ہوتے ہیں ۔ مگر سرخ یا سفید رنگ کی مولی زیادہ پسند کی جاتی ہے۔ مولی اپنے گنے کے ابتدائی دور میں بہت زیادہ نرم و نازک ہوتی ہے۔ جوں جوں پکھی جاتی ہے اس میں کمی پیدا ہوتی جاتی ہے۔

مولی کا اصلی وطن مغربی ایشیا خیال کیا جاتا ہے۔ جبکہ اسے قدیم مصر یونان اور روم میں بھی کاشت کیا جاتا تھا۔ برصغیر پاک و ہند میں بھی مولی کی کاشت وسیع رقبہ پرکی جاتی ہے۔ مولی کے پتوں کی نسبت اس کی جڑ زیادہ استعمال کی جاتی ہے نہ سمجھا جائے

کہ مولی کے پتے کسی کام نہیں آتے۔ اس کے بچوں کو پکا کر سالن کے طور پر کھایا جاتا ہے۔ سلاد میں استعمال کیا جاتا ہے۔ مولی کی جڑ کی نسبت اس کے پتوں میں کیٹی پروٹین، فاسفورس اور وٹامن کی زیادہ پایا جاتا ہے۔ مولی کا فائدہ بھی حاصل ہوتا ہے جب اس کو کا استعمال کیا جائے۔ اگر مولی کو آگ پر پکایا جائے تو اس کے سارے حیاتینی اجزاء ضائع ہو جاتے ہیں خصوصا ایسے اجزاء جو سکروی دور کرتے ہیں۔

مولی کی غذائی صلاحیت

مولی کی 100 گرام خوردنی جڑ میں رطوبت 4.4ویصدریشے 0.8فیصد کاربوہائیڈریش3.4 فیصد چکنائی 0.1 فیصد پروٹین 0.7فیصد اور معدنی اجزاء 0.6 فیصد تک ہوتے ہیں ۔ جبکہ 100 گرام مولی میں پاۓ جانے والے معدنی و حیاتینی اجزاءدرج ذیل مقدار میں ہوتے ہیں:

کیلشیم 35 ملی گرام آئن 0.4 ملی گرام فاسفورس 22 ملی گرام وٹامن کی 15 ملی گرام کے علاوہ وٹامن بی کمپلیکس کی کچھ مقدار ہوتی ہے۔ مولی کی 100 گرام جڑ کی غذائی صلاحیت 17 کیلوریز ہوتی ہے۔ . مولی کے پتوں میں رطوبت90.8 فیصد پروٹین 3.8فیصد معدنی اجزاء 1.6 فیصد چکنائی0.4 فیصد ریشے 1.0 فیصد اور کاربوہائیڈریٹس 2.4 فیصد تک پائے جاتے ہیں اور اس

کے معدنی اور حیاتینی اجزاء میں یتیم 265لی گرام فاسفورس 59ٹی گرام آئن 3.6 ملی گرام وٹامنی 81 کرام اور کچھ مقدار میں وٹامن بی پلیس ہوتی ہے جبکہ مولی کے 100 گرام بچوں کی غذائی صلاحیت 28 کیلوریز ہوتی ہے۔

مولی کے شفابخش اجزا اور قدرتی فائدے

مولی ایسی سبزی ہے جس کے پتے پیشاب آور دافع سکروی اور سہل ہوتے ہیں۔ اس کی جڑ بھی سکروی کے مرض سے محفوظ رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کا علاج بھی کرتی ہے۔ جبکہ مولی کے ہم باہر نکالتے ہیں ۔ بخیر کی بے چینی کی حالت میں سکون پہنچاتے ہیں۔ اس کے علاوہ پیشاب آور خاصیت بھی رکھتے ہیں ۔ اس کے سہل اور شرک ہی ہوتے ہیں۔ لم مولی کی تازہ جڑ کا جو روزانہ وشام بقدر 60تا90یلٹ پیتے رہنے سے بواسیر سے نجاتل جاتی ہے۔

لم تم کی شدید درد کی حالت میں پیشاب تکلیف سے آنے کی صورت میں مولی کا جوں بہترین علاج بالغذاہے۔ تکلیفکی شدت کے مطابق 60 سے 90لی لٹر تک مولی کا جوس پینے سے تکلیف میں افاقہ ہو جاتا ہے۔ حسب ضرورت اسے دن میں تین بار سے زیادہ مرتبہ بھی پیا جاسکتا ہے۔ مولی کے پتوں کا جوں اقترایک کپ روزانہ پندرہ دن تک پینے سے مثانے کی چوری میل ہو جای ہے اور سوزش ختم ہوجاتی ہے۔ سے مولی کے کوٹ کر سرکہ ڈال کر پیسٹ بنالی جائے اور پھلبہری کے سفید داغوں پر لگایا جائے تو داغ ختم ہو جا ئیں گے۔ پیٹ بنانے کا طریقہ یہ ہے 35 گرام

کوٹ کر سفوف بنالیں ۔ پھر اس میں سرکہ ملا ہیں۔ مجھے پیٹ تیارہے۔ زیادہ بہتر نتائج حاصل کرنے کے لئے مولی کے بیجوں کو کوٹتے ہوئے اس میں چلی جر سنکھیا آرسینک ملا لیں ۔ رات بھر سرکہ میں بھگوئے رھیں۔ ان پر پتے نمودار ہو جائیں گے۔ ان کو جسم پنظر آنے والے سفید داغوں پر لگائیں۔ اس تیار دوا کو صرف بیرولی طور پر استعمال کیا جاسکتاہے۔

مولی کا تازہ جوس ایک چمچہ شہد ایک چمچہ نمک تھوڑا سا ملا کر استعمال کرنے سے کالی کھائی گلا بیٹھنا برونکائیٹس کے علاوہ سینے کے دیگر امراض دور ہوجاتے ہیں ۔ اردو ادب میں تین بار استعمال کرنی چاہئے۔ فلم مولی کے سبز پتوں کا جوں یرقان کا شافی علاج ہے۔

پتوں کا جوں نکالنا کوئی مشکل نہیں ہے۔ پہلے پتوں کو دھو کر صاف کر لیں پھر چل لیں ۔ کچلے ہوئے پتے کسی کپڑے میں باندھ کر نچوڑنے سے جو نکل آتا ہے۔ اگر چاہیں تو ذائقہ بہتر بنانے کے لئے اس جوں میں چینی بھی شامل کی جاسکتی ہے۔ روزانہ آدھا لٹر جون ایک بالغ مرد کے لئے کافی ہے۔ اس کے استعمال سے بھوک بڑھتی ہے۔ صفراخارج ہوتا ہے اور مرض بھی رفتہ رفتہ نا پید ہوجاتا ہے۔ علم مولی کے پتوں میں صف مادے پائے جاتے ہیں اور مولی کے بیجوں کا ایشن 

پانی کے ساتھ بنانے کے بعد چہرے پر ملنے سے کالے تل اور چھائیاں ختم ہوجاتی ہیں۔ چہرے کی رنگت نکھر آتی ہے۔ سے پیٹ کے کیڑے خاص طور پررنگ ورم کی ہلاکت کے لئے مولی کے پتوں کا استعمال آزمودہ علاج ہے۔سر درد کا موجب بنتا ہے۔لہسن کے 100 گرام میں رطوبت62.0 فیصد پروٹین 0.3فیصد ریشے 0.8 فیصد چکنائی0.1 فیصد کاربوہائیڈریٹس 29.8فیصد اور معدنی اجزاء1.0 فیصد پائے جاتے ہیں۔ جبکہ معدنی اور حیاتینی اجزاء میں کیایم 30ی گرام فاسفورس 310 ملی گرام آئرن1.3 ملی گرام وٹامن سی 13 ملی گرام کے علاوہ کچھ مقدار وٹامن بی پلیس بھی شامل ہوتی ہے۔ 100 گرام ان کی غذائی صلاحیت 145 کیلوریز ہے۔

قدرتی فائدے اور شفابخش استعمال

و نباتاتی طریقہ علاج میں بن صدیوں سے امراض دم بہرہ پن جذام کے پردوں میں بلغم کا اجتماع شریانوں کا تخت ہوکر سڑ جانا بخار پیٹ کے کیڑے جگر اور پتے کے امراض میں شامی دوا کے طور پر استعمال ہوتا رہا ہے۔ پرانے آیورویدک اطباء کے مطابق لہسن دل کے لئے بالوں کے لئے معدے کے لئے قوت بخش غذا اور جذام بواسیر پیٹ کے کیڑے بھی امراض دمہ اور کھاک کے لئے موژترین دوا ہے کہ ان کو شباب آور بھی کہا جاتا ہے۔ یہ خون میں پائے جانے والے فاسد مادوں کو خارج کرتا ہے۔ خون کوی طاقت مہیا کرتا ہے۔ خون کی گردش کو فعال بناتا ہے۔ انتڑیوں کے بل میں با قاعدگی پیدا کرتا ہے۔

ان کے جوں میں پائی جانے والی اسیر بہت زیادہ طاقتور اور جازب ہوتی ہے کہ پ ردوں اور سانس کی نالیوں میں جمع شده بشم ولیل کر کے جسم سے خارج کر دینا ہے۔ اس کے علاوہ جسم میں موجود دیگر فاسد مادوں کو جلد کے مساموں کے ذریعے خارج کرنے میں معاونت کرتا ہے۔ علی ابن سینے کے کئی امراض میں انتہائی موثر علاج ثابت ہوتا ہے۔ پھیپھڑوں کی کنکر ین کی حالت میں ان سانس کی ناقابل برداشت بوکوکم کرتا ہے۔ پھیپھڑوں کی تپ دق میں بسن مفید رہتا ہے۔ ان کا کثرت سے استعال نمونیہ کے علاج کے لئے سالہا سال سے امریکی ڈاکٹر ایف زرلی

ڈبلیو کراس کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ان کے مطابق یہ بخار کی حدت کم کرنے کا سب سے کامیاب ہے کیونکہ اڑتالیس گھنٹے کے اندراندرسالس اورنبض معمول پر آ جاتے ہیں۔آیورویدک طریقہ علاج میں ان کو دودھ میں ابال کر بنایا جانے والا جوشاندہ تپ دق کے مرض میں معجزہ نما دواسمجھی جاتی ہے۔

یہ جوشاندہ تیار کرنے کے لئے ان کی کئی کو 240 لی لٹر دودھ اور ایک لٹر پانی میں اس وقت تک ابالا جاتا ہے جب یہ صرف ایک چوتھائی جائے۔ اس جوشاندہ کوروزانہ تین بار پینا مفید رہتا ہے۔ دمہ کے مریض کو ان کی تین تزریاں دودھ میں ابال کر پلانا اچھے نان دیتا ہے۔ علم من نظام ہضم کے لئے بہت ہی فائدہ مند غذائی دوا ہے۔ مینیسیوں پر شبت اثرات مرتب کر کے بدن میں پائی جانے والی نقصان دہ رطوبتوں کے اخراج میں مدد کرتا ہے۔

ہاضم رطوبتوں میں اضافہ کرنے کا سبب بنتا ہے۔ انتڑیوں کو ترک کرنے میں معاونت کرتا ہے۔ ان کا تیل غذا کی نالیوں میں جذب ہو جاتا ہے۔ اس کی معمولی مقدار پیشاب کے ذریعے خارج ہو جاتی ہے۔ انتڑیوں پر ان کا اثر بہت زیادہ ہوتا ہے۔ آنتوں کے کیڑوں کا خاتمہ کرتا ہے۔ بڑی آنت کی سوزش کے علاوہ اور انتڑیوں کی

تعد تکلیفیں تازہن یا ان کے کپسول استعال کرنے سے ٹھیک ہوجاتی ہیں۔ الم بن میں ہائی بلڈ پریشر کو کم کرنے کی زبردست صلاحیت پائی جاتی ہے۔ یہ چھوٹی شریانوں کی ا ن کو کم کرتا ہے جس سے دباؤ اور تناد کم ہوجاتا ہے۔ نیش کوسست کرتا ہے۔ دل کی دھڑکن کو اعتدال پر لاتا ہے۔ ریسر چکرانے سانس میں کی اور اعضائے بشم میں بغیر کوٹی ختم کرتا ہے۔ تو ان کے دافع سوزش اجزاء گنٹھیا اور جوڑوں کی سوزش میں بہت مفید رہتے ہیں۔ اسی لئے روس میں گنٹھیا اور جوڑوں کے امراض میں دن بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ برطانوی ڈاکٹرز بھی گنٹھیا کے مرض میں ان کو بطور دوا تجویز کرتے ہیں۔ جاپان میں بھی لہسن کے جوہر کو کمر درد اور جوڑوں کی سوزش

کے 100 مریضوں پر آزمایا گیا اور مفید پایا ہے۔ گنٹھیا نقرس اور جوڑوں کے مرض کی صورت میں متاثرہ حصوں پر ان کی تریاں پھیل کر رگڑ نا موثر ثابت ہوتا ہے۔ سے جرمنی کے ڈاکٹروں نے دعوی کیا ہے کہ ان دل کے دورے روکنے کی کامیاب دوا ہے۔ کولون یونیورسٹی کے مشہور پروفیسر ہیر رائٹرز کہتے ہیں کہ ان خون کی نالیوں میں کولیسٹرول کو توڑنے میں مدد معاون رہتا ہے۔ شریانوں میں کیا پیدا نہیں ہونے دیتا۔ بلڈ پریشر میں اضاے کو روکتا ہے جس سے دل کے دورے کا خطر ہو جاتا ہے۔

ام ان کا استعمال انسانوں اور جانوروں میں کینسر کی نشوونما میں بہت زیادہ مزاحمت کرتا ہے۔ فلم بن خناق کا عمدہ ترین علاج ہے۔ ان کی تری چباتے رہنے سے گلے کی بھی دور ہو جاتی ہے۔ بخار کی شدت میں کیا جاتی ہے۔ مریض کو سکون کا احساس ہونے لگتا ہے۔ ہفتے میں کم ازکم 30 سے 80 گرام تک ان کی تریاں تین چار گھنٹے تک ضرور چباتے رہنا چاہئے۔ جب گلے کی بھی دور ہو جائے تو بھی ان کی متذکرہ بالا مقدار روزانہ استعمال کرتے رہنا ضروری ہے۔ چونکر خناق کے مریض کی ذائقہ (چھنے )

اور سونگھنے کی حس عارضی طور پرمعطل ہو چکی ہوتی ہے اس لئے خناق کا مریضین کو آسانی سے چاسکتا ہے۔ نیز اسے ہن گرمی محسوس نہیں ہوتا۔ له ان قدرتی بے ضررمقوی باہ غذا ہے۔ ایک مشہور امریکی ڈاکٹر رابنسن جوشہور ماہر جنیات بھی ہے اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ان زبردست ی ٹانک ہے۔

اس کو استعمال کرتے رہنے سے جنسی طاقت کی کئی خواہ اس کی وجہ کوئی بھی ہو تم ہو جالی ہے۔ عادت بد کا شکار مریضوں کے اعصاب بے جان ہو جاتے ہیں۔ یا ایسے مریض جونی سرگرمیوں میں زیادہ موثرتے و نامرد ہو جاتے ہیں ۔ ان ایا ٹانک ہے جو ان ساری تکلیفوں کا خاتمہ کرتا ہے۔ لینن بے مثال ٹانک ہے۔ بڑی عمر کے لوگ جو اعصابی تناؤ اور جنسی کمزوری میں مبتلا ہوں ان کے لئے ان بہت ہی مفید غذا اور دوا ہے۔

لہسن چونکہ جراثیم کش بھی ہے اسی لئے اسے زخموں ناسوروں کے علاج میں بطور جراثیم کش دوا استعمال کیا جا تا ہے ۔لہسن کا جوں ایک حصہ اور پانی تین حصے ملا کرلون بنائیں۔ اس لوشن سے زم اور متاثرہ جلد کو دھوتے رہنے سے اند مال کے عمل میں تیزی آ جاتی ہے۔ نیز 15 فیصد ان کے جوں کا مرہم زخموں پر لگانے سے پیپ چند ہی دنوں میں خشک ہو جاتی ہے۔ اس مرام سے دردی دور ہو جاتا ہے۔ ان کی اسی خوبی کی وجہ سے روی معان زخموں کے اند مال کے لئے اس کا بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ بل لہسن کا استعال کالی کھائی کے علاج کے لئے بہت مفید رہتا ہے۔ہسن کے جوں کے پانچ قطروں سے ایک چائے کے

نیچے تک روزانہ تین بار پلاتے رہنے سے کالی کھاکی دور ہو جاتی ہے۔ اگر کالی کھائی کے دورے شد بد اور بار بار پڑتے ہوں تو خوراک دوا بڑھائی جاسکتی ہے۔ الالم ان کی تیاں چھیل کر کیل مہاسوں پر رگڑی جائیں تو کیل مہاسے بغیر کوئی نشان چھوڑے غائب ہو جاتے ہیں۔ بلوغت کی سرحد میں قدم رکھنے والے لڑکے لڑکیوں کے چہروں پر ظاہر ہونے والے میں پھنسیاں جو دوسری دواعلاج سے ٹھیک نہ ہوتے ہوں وہ ان کے علاج سے ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ لن جلد پر ان کا بیرونی استعال داغ دھے پھوڑے پھنسیاں اور چھائیاں دور کرتا ہے۔ علاوہ ازیں سن کھاتے رہنے سے نتان زیادہ اچھے سامنے آتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ مصفی خون ہے۔ اگر خون صاف ہوگا تو جلدی صحت مند ہو

گیا۔ جلد کے معمولی ایشن بن کے تین کپسول روزانہ کھاتے رہنے سے ختم ہوجاتے ہیں۔ اب پیاز کے بعد دنیا بھر میں ان سب سے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ غذا اور مرچ مسالہ کے اہم جزو کی حیثیت سے استعمال ہوتا ہے۔ اس کو شور ہے اچار اور پانی میں ڈالا جاتا ہے۔ اٹلی اور چین کے باشندے تو ان کو ہر غذا کے ساتھ اپنے کھانے میں استعمال کرتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *