(Garlic) لہسن

لہسن کا تعلق ان سبزیوں سے ہے جن کی جڑیں غذا کے طور پر استعمال کی جاتی ہیں۔ یہ پیاز کے خاندان کی گھریلو سینی ہے۔ جسے زمانہ قدیم سے کاشت کیا جارہا ہے۔ ان کی اہمیت کئی حوالوں سے ہے۔ اسے بطورغذا جراثیم شب دوا آرائی پورا معاون حسن اور جزماتریاق کے ساتھ ساتھ بطورٹی پورا نامعلوم زمانوں سے انسان کام میں لارہے ہیں۔

من مقوی بدن ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سی جسمانی بیماریوں کو اپنی عمدگی اثرات کی بدولت رفع کرتا ہے۔ اس کی بواس کی تاثیرات کا اہم اور اعلی جزو ہے۔ جو بہت سے جراثیوں کو فنا کرنے کی قوت رھتی ہے۔ مقوی جسم مقوی باہ اور مصفی خون ہے۔ بھی پسلیوں کا درد باؤ گولہ قلت ہاضمہ بھی کھانی (دمہ)

ورم بدن بواسیر بادی اور پیٹ کے کیڑوں کو دور کرنے کے لئے بہت ہی موثر اور فائدہ مند ہے۔ ان کا استمعال حافظ کو بڑھاتا ہے۔ دماغ کو طاقتور بناتا ہے۔ بینائی کو تیز کرتا ہے۔ موتیابند کے پانی کو روکتا ہے۔ پردوں کی اصلاح کرتا ہے اور نظر کی کمزوری کی مجرب دوابالغذاہے۔

ایام و باء میں اسے استعمال کرتے رہنے سے زہریلا مادہ جسم میں داخل نہیں ہوسکتا۔ نیز پہلے سے جمع شدہ مواد اس کے استعمال سے آہستہ آہستہ چل جاتا ہے یا خارج ہو جاتا ہے۔ بی گنی فاج لقوہ کی حالتوں میں بچوں بوڑھوں کے لئے یکساں مفید ہے۔ اسے سرد مزاج مریم استعمال کر سکتے ہیں۔

ا ین مسالوں میں شمار کی جانے والصل ہے۔ اس کا پودا کھڑا ہوتا ہے اور دو سال تک رہنے والا ہوتا ہے۔ اس کے باوجود اس کی کاشت ہر سال کی جاتی ہے۔ اس کے تمام فوائد اس کی جڑ میں جمع ہوتے ہیں۔ جوئی ئیتیں مل گئے کی صورت میں ہولی ہے۔ اس کے پتے اور ڈھلی چھٹے ہوتے ہیں۔ اس کے ایک گئے میں دس

سے 35 تک تریاں ہوتی ہیں جو الگ الگ پئے چکدارسفيد غلاف میں ملفوف ہوتی ہیں اور سب کی سب ایک سفید غلاف میں کے کیمپ میں پڑی ہوئی ہوتی ہیں۔

ان کا آبائی وطن وسط ایشیا کا علاقہ ہے لیکن چین کے لوگ اسے تین ہزار سال ل ت سے استعمال کرتے چلے آتے ہیں۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی چین کے لوگوں کی روز مرہ غذا کا اہم جزو ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک قدیم مصر یونان روم میں بھی لہسن کاشت کیا جاتا تھا۔ پی غذا کے علاوہ کئی امراض میں بطور دوا استعمال کیا جاتا تھا۔

آ ہسن پوری دنیا میں پھیل چکا ہے اور اکثر ممالک میں کاشت کیا جارہا ہے۔ جن میں پاکستان، بھارت فلپائن چین ایتھوپیا کینیا برازیل اور میکسیکو کے نام شامل ہیں۔ سن پر جدید تحقیقات:

امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں لہسن کی روز بروز بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر میونخ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مشہور سائنس دان ڈاکٹر اسٹریفورڈ نے 1926ء میں اپنے ایک مقالہ میں ان کی خوبیوں کو ان الفاظ میں سراہا۔

من خدا کا عطیہ ہے جس کے استعمال سے دل و دماغ اور جسم تینوں ترقی پذیر ہوتے ہیں ۔ اس کے متواتر استعمال سے جسمانی طاقت بے انتہا بڑھ جاتی ہے اور جسم میں خون صار پیدا ہوتا ہے۔

من بارے ایسے ہی خیالات کا اظہار نیو یارک کے مشہور ڈاکٹر پوڈ اسکی نے کیا ہے۔ نیز مانچسٹر میڈیکل ایسوی ایشن کے صدر ڈاکٹر ای بریڈلے نے تو اس کے فائدے بیان کرتے ہوئے کہا ہے

لہسن دماغی امراض کزاز اور دق سل کے لئے بے حد مفید ہے۔ میں اس کو دواؤں میں ایک عظیم دواخیال کرتا ہوں جوں جوں سائنس ترقی کرلی گئی ان تحقیقات کا سلسلہ دھیرے دھیرے بڑھتا رہا۔ یہاں تک کہ اب اسے ایک بہترین دافع خفن دوا قرار دے

دیا گیا ہے۔ چنانچہ مشہور روی سائنس دان بی زیتولاسکی اپنے مقالے پودے جو جراثیم ہلاک کرتے ہیں میں لکھتے ہیں: .

پیاز اور ہن جنہیں قدیم مصری اور دوسرے ملکوں کے عوام بطور دوا استعمال کرتے ہیں میں ایسے مادے پائے گئے ہیں جومختلف قسم کے جراثیم اورٹیلی کیڑوں کو بہت تھوڑے

عرصے میں ہلاک کر سکتے ہیں ۔ ان کا بیان ہے کیبن میں اتنی طاقت کے مارے ملتے ہیں جو دق کے جراثیم کو پانچ منٹ کے اندر اندر ہلاک کر سکتے ہیں۔

بشکری غذاسےعلان از ڈاکٹر نفرت آشیرجه) حال ہی میں امریکہ میں ہونے والی ایک کمیت اس بات کی تصدیق کرتی ہے کان میں ایک اڑ جانے والا تیل پایا جاتا ہے جسے الائیل سلفیڈ کہتے ہیں ۔ یہی تیل اسے جراثیم کش بناتا ہے۔ یہ بیکٹیریا کی افزائش کو روکتا ہے اور مل تکسید سے سلفونیک اینڈ میں تبدیل ہو کر جگر پھپودوں گردوں اور جلد سے بیکٹیریا کو خارج کرتا ہے۔ 

لہسن کی غذائی صلاحیت

لہسن کو اپنی صحت بخش خوبیوں کی وجہ سے پوری دنیا میں گزشتہ کئی صدیوں سے اعلی مقام حاصل رہا ہے۔ تارت بتاتی ہے کہ اہرام مصر کے معماروں میں ایک معمار کا نام نوم خوف تھا۔ وہ پہلائق تھا جس نے ان کی خوبیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے تمام کارکنوں کو علم دیا تھا کہ وہ روزانہسن کھا کر کام شروع کیا کریں تا کہ ان کی صحت اور طاقت برقرار رہ سکے۔

لہسن کے کیمیائی تجزیہ سے یہ پتہ چلا ہے کہ ان میں معدنی اور حیاتینی اجزاء کی وافر مقدار موجود ہے۔ اس میں آیوڈین اور کلورین کے علاوہ سلفر کی کچھ مقدار پائی جاتی ہے۔ جدید تحقیق سے یہ پتہ چلا ہے کہ ان میں دق کے جراثیم ہلاک کرنے کی بے پناہ صلاحیت پائی جاتی ہے۔ان خودی جزو بدن بنتا ہے اور خون کوتقویت پہنچاتا ہے۔ ایک مشہور جرمن ڈاکٹر کا قول ہے جب تک دنیا میں جن موجود ہے مریضان دق کو میں نہیں ہونا چاہئے ۔

اس مقولہ کی روشنی میں یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ان کو مریضان دق کے لئے یی دواتسلیم کیا گیا ہے۔ خالص پن کا عرق بہت زیادہ وزش پیدا کرتا ہے۔ اسی لئے پانی ملا کر اس کا عرق نکالا جاتا ہے تا کیلق اور معدے میں زیاد جلن اور خراش پیدا نہ ہو۔

ان کا مزاج گرم خشک ہے اس لئے ان لوگوں کو جن کا مزاج گرم ہو اس کا زیادہ استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ دق کے مریض اگر اسے گاہے گاہے سونگھتے رہیں تو ان کا بی سونگنا قاتل جراثیم دق ثابت ہوتا ہے۔ بچوں کے گلے میں اس کی تلوں کا ہار بنا کر ڈالا ! جاۓ یا تریاں کی کپڑے میں باندھ کر اس طرح لگائی جائیں کہ جن ان کے سینے اور حلق سے کس ہوتا رہے تو وہ بھی کھاکیسے

محفوظ رہتے ہیں۔ رات کے وقت ان کی ایک دوتریاں کھانا یا ان کو ابال کر قوام میں ڈال کر یا ان میں شہد ملا کر کھاتے رہنے سے مندرجہ بالا تمام فوائد حاصل کئے جاسکتے ہیں۔

طب کی مشہور کتاب خزائن الادویہ میں اسے چوتھے درجہ تک گرم بتایا گیا ہے۔ اس کی حرارت کو انسانی جسم کی حرارت غریزی کی مانند قرار دیا ہے۔ ان کا استعمال سردینی مزاج رکھنے والوں کے لئے بہت فائدہ مند ہے۔ جبکہ بواسیر پیچش اور خنازي کے مریضوں کے لئے ضرر رساں ہے۔ گرم مزاج رکھنے والوں کو ان کے استعمال سے پیاس نتی ہے منہ میں ٹی پیدا ہوتی ہے ۔

Leave a Comment