آم (Mango)

آم کو ایشیائی پھلوں کا بادشاہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ میٹھے پھلوں میں انفرادیت رکھتا ہے۔ آم منطقہ حارہ کے ملکوں میں بہت مقبول اور مرغوب پھل ہے۔ بیتی غذا اور گھریلو علاج کی چیز ہے۔ آم کا گودا گداز ہوتا ہے۔ اس کی بہت زیادہ میں ہیں۔ ہم

کی شکل اور رنگ مختلف ہوتا ہے۔ ان کی جسامت بھی الگ الگ ہوتی ہے۔ آم کا رنگ گہرا سبز زرد سرخ ہوتا ہے۔ آم ایا پل ہے جس کی ملی بہت سخت ہوتی ہے۔ آم کی تمام اقسام کی گٹھلیاں بھی مختلف جسامت کی ہوتی ہیں۔ تم ایسا پھل ہے جو سدا بہار نے اور سرسبز درخت میں لگتا ہے۔ اس درخت کے پتے گہرے سبز نوکدار اورخت ہوتے ہیں۔

آم کے بچوں کو مختلف تقریبات میں سجاوٹ کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے جبکہ اس کی ٹہنیاں ہندو لوگ ’مقدس آگ‘‘ کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ آم کی سب

سے ایم خوب رل دار تھی اور بغیر ریشے کے ہوئی ہے۔ اس کا ذائقہ بہت ہی لذیذ ہوتا ہے جبکہ سب سے بریسم میں بہت زیادہ ریشے ہوتے ہیں اور والقته برا ہوتا ہے۔

ہم برصغیر کا مقامی پیڑ ہے۔ آم ہندوستان میں چار ہزار سال سے لگایا جارہا ہے۔ ویدوں میں تم کو سورگ کا چھل کہہ کر بہت سراہا گیا ہے۔ ہندو دیو مالا میں بیان کیا گیا ہے کہ جب کبھگوان شیوانه پارتی ہمالیہ سے آئے تو وہ اس چال سے محروم ہو گئے۔ پارت کو آم بہت پسند تھے۔ اس نے اپنے خاوند شیو سے درخواست کی کہ وہ اپنی خدائی طاقت سے آم کا پیڑ پیدا کرے۔

بھگوان شیو نے اپنی بیوی پاریت کی خواہش پوری کرتے ہوۓ آم کا پیٹ گلیق کیا اور بیچل پورے ہندوستان میں پھیل گیا۔ سکندر اعظم اور اس کے سیاہی پہلے یورپی تھے جنہوں نے 327 مبل تع میں آم کا چل دیکھا۔ پانچویں صدی

تک میں ہندوستانی اسے ملایا اور مشرقی ایشیائی ملکوں میں لے کے گئے جبکہ مشرقی افریقہ کے ساحل میں ایرانیوں کے توسط سے دسویں صدی عیسوی میں پہنچا۔

موجودہ زمانے میں آم ہندوستان کے علاو چین بنگلہ دیش پاکستان ہیٹی، میکسیکو اور برازیل میں خوب چل پھول رہا ہے۔ صرف برصغیر میں آم کی 500 اقسام پائی جاتی ہیں جن میں

سے صرف 35 زیادہ اگائی جاتی ہیں۔

:غذائی صلاحیت

آم ایسا پھل ہے جو پکنے کے ختلف مراحل میں بطور غذا استعمال ہوتا ہے۔ کچھ اور بنر آم میں ٹارچ کی وافر مقدار پائی جاتی ہے جبکہ آم کے پک جانے پر یہ بالکل ختم ہو جاتی ہے۔ پکے آم میں ٹارچ گلوکوز سرکوز اور مالٹوز میں بدل جاتی ہے۔ سبزآم میں پیشن بہت زیادہ ہوتی ہے۔ جب امکی بن جاتی ہے تو بیٹن غائب ہوجاتی ہے۔ کچے آم کا زالق اوگزالیک الیسٹ سٹرک ایڈیلک ایسڈ اور سٹیک ایسڈ کی وجہ سے بہت زیادہ ترش ہوتا ہے۔ آم کے 100 گرام خوردنی حصہ میں

81,0

فصد رطوبت0,6 فهد پروین 4, ونصر چکنائی 4,ونه معدنی اجزاء0,7فهد ریشے اور 16,9

فیصد کاربو ہائیڈ رائیٹس پائے جاتے ہیں۔ آم کے معدنی اور حیاتینی اجزاء میں کیایم 14 ملی گرام فاسفورس 16 ملی گرام آرن

1.3 ملی گرام وٹامن کی 16 ٹی گرام اور قدرے وٹامن بی پلیس شامل ہیں۔ آم کے 100 گرام کی غذائی صلاحیت 74 کیلوریز ہے۔

کچے آم میں وٹامن سی کا وافر ذخیرہ ہوتا ہے۔ جبکہ آدھ پکے ہوئے اور پورے پکے ہوۓ آم کی نسبت وٹامن سی کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ اس میں وٹامن بی دلی 2 اور نایاسمین بھی پائی جاتی ہے۔ ان وٹامنز کی مقدارختلف اقسام میں مختلف اور کئے کے مرحلے اور ماحول کے مطابق ہوتی ہے۔

کا ہوا آم ل غذا اور صحت بخش چل ہے۔ اس کا سب سے بڑا غذائی جزوینی ہے۔ پکے ہوئے آم میں پائے جانے والے ایڈز میں ٹارٹرک ایسڈ ملک ایسڈ اور اور سٹرک ایسڈ شامل ہیں۔ یہ ایسے نشے ہیں جنہیں ہم خوب استعمال کرتا ہے اور یہ جسم میں امی کے ذخیرے کو برقرار رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔

:شفا بخش قوت اور طبی استعمال

هم آم خواہ پختہ ہو یا کا ہر دو صورتوں میں بھر پور طبی افادیت کا حامل ہوتا ہے۔ کیا تم ترش ہوتا ہے قبض کرتا ہے اور دافع سکروی ہوتا ہے۔ کچے آم کا چھلکا بھی قابض ہونے کے ساتھ ساتھ قوی ہوتا ہے۔ آم کے درخت کی چھال قابض ہوتی ہے۔ یی بافتوں کے لئے ممکن ہوتی ہے۔

کچے آم کا اچار پورے برصغیر ہندو پاک میں بہت مقبول اور مرغوب ہے۔غرباء تو ای اچار سے سان کا کام لے لیتے ہیں جبکہ امراءاس کو بطور چارہ استعمال کرتے ہیں۔ اگر اچار بہت زیادہ کھٹا اور مصالحے دار ہونے کے ساتھ ساتھ تیل میں بہت زیادہ ڈوبا ہوا ہو تو نقصان دہ بھی ہوسکتا ہے۔ جن لوگوں کو جوڑوں کی سوزش اور دردر ہوتا ہو انہیں اچار سے دور رہنا چاہئے ۔

اسی طرح گنٹھیا ناک کی ہڈی کی سوزش گلے کی خراش اور تیزابیت کا شکار مریضوں کو چار سے مکمل پرہیز ضروری ہے۔ اي پخته ام دافع سکروی پیشاب آور ملین مقوی اور وزن بڑھانے والا پھل ہے۔ دل کے پٹھوں کو مضبوط بناتا ہے۔ رنگت کو صاف کرتا ہے۔ بھوک میں اضافہ کرتا ہے۔ آم کے استعمال سے بدن میں سات چیزوں کو بنانے میں مدیتی ہے۔ معدے ک م

کرنے والی رطوبت خون گوشت ہڈیوں کا گودا مادہ منویہ وغیرہ۔ مجگر کی خرابیوں وزن کی کمی اور دیگر جسمانی بے قاعدگیوں

. .

کھی دور کرتا ہے۔

کچے آم کے فائدے

نیم پخته آ م دھوپ کی حدت اور گرم ہوا (گو) کے اثرات کو کم کر کے ختم کرتا ہے۔ کچے پکے آم کو گرم راکھ میں پکا کر اس کے

گودے کو پانی اور چینی میں ڈال کر ایک مشروب تیار کر لیا جاتا ہے۔ اس مشروب کے پیتے رہنے سے ہیٹ سٹروک (گولگنا) کے برے اثرات دور ہو جاتے ہیں۔ کچے آم کونمک لگا کر کھانے سے پیاس کی شدت ختم ہوجاتی ہے۔ اس کے استعمال سے گرمیوں میں اضافی پینے سے سوڈیم کلورائیڈ کی کی دور ہوجاتی ہے۔ علم کے (نیم پختہ ) بنزا معدے

اور انسردیوں کے علاج میں بہت فائدہ پہنچاتے ہیں۔ ایک دوا سے کیے جن کی ابھی پوری طرح نہ بنی ہو نمک اور شہد کے ساتھ کھانے سے گری کے اسہال پیش بواسیر منہ کے اضمحلال پرانی بھی فساداشم اورشکا شافی علاج ہے۔ علی صفراوی پیاریوں میں کچے آمد و علاج بالغذا ہیں۔ کیونکہ ان میں پائے جانے والے ایسڈ زصفرا کا اخراج بڑھادیتے ہیں اور انتڑیوں کے لئے جراثیم کش مادے کا کردار ادا کرتے ہیں ۔ کے روزانہ شہد اور کالی مرچ کے ساتھ کھانے سے صفرا سے نجات ل جاتی ہے۔ بیکٹیریا کی وجہ سے پروٹین کے جزو بدن نہ بنے کی کیفیت یرقان اور چھپا کی میں بھی موثر ثابت ہوتا ہے۔ کچے آم کا دکور و استعال جگر کوتقویت دیتا ہے اور نہ رکھتا ہے۔ لم کے نزآم وٹامن کی کی وافر مقدار کی وجہ سے خون کے امراض کا بھی کارگر علاج ہے۔ اس کے استعمال سے خون کی نالیوں کی لچک میں اضافہ ہوتا ہے۔ خون کے خلیے بنانے میں معاونت کرتا ہے اور غذائی فولاد (فوڈ آرن) کا انجذاب بڑھ جاتا ہے

اور خون کا اخراج رک جاتا ہے۔ کیا تم تپ دق انیمیا ہیضہ اور پیش کے خلاف جسم میں مزاحمت بڑھاتا ہے۔ علم

کے آموں کو سکھا کر بنائی جانے والی اور کے 15 گرام میں اتنا سٹرک ایسڈ ہوتا ہے جتنا 30 گرام لیموں میں پایا جاتا ہے۔ اسی لئے سکروی (وٹامنی کی کمی کے مرض میں اپور کا استعمال بہت موثر رہتا ہے۔

:پختہ آ م کے طبی فوائد

آنکھوں کے امراض جیسے شب کوری (رات کو نظر نہ آنا) یا کم روشنی میں نہ دیکھ سکتا جیسی امراض میں پخته (پکا ہوا) تم بہترین علاج ہے۔ کیونکہ ان امراض کی وجہ وٹامن اے کی کمی ہوتی ہے اور بی امراض غریب ماں باپ کے بچوں میں غذائیت کی کی

کے باعث بہت عام ہے۔ آموں کے موسم میں زیادہ سے زیادہ آم کھاتے رہنے سے اس مرض کے تدارک میں معاون رہتا ہے۔ امراض چشم کی کئی دوسری حالتوں میں بھی آم کھانا مفید ہے۔ پی ایسے امراض ہیں کہ ان کا انجام اندھے پن کی طرف لے جاتا ہے۔ آنکھوں کا بھینگا پن آ نکھوں کی خشکی قرنیکی نرمی اور آشوب چشم کے امراض کو بڑھنے نہیں دیتا۔

وزن کی کمی کی صورت میں آم اور دودھ استعمال کرنا مثالی علاج ہے۔ وزن بڑھانے کے لئے بہتر اور میٹھے آم استعمال کرنا

ضروری ہے۔ دن میں تین بار آم کو دودھ کے ساتھ لیتے رہنے سے وزن میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ آم پہلےکھا لیں اور اوپر سے دودھ پیں چونکہ ا م میں شکر کی مقدار زیادہ ہوتی ہے اس لئے دودھ میں چینی ملانا ضروری نہیں ہوتا۔ البتہ آم میں شکر ہوتی ہے پروٹین ہیں ہوتی جبکہ دودھ میں پروٹین ہوتی ہے شک نہیں ہوئی ۔ اس طرح ان دونوں کا امتزاج ایک دوسرے کی کمی دور کر دیتا ہے۔ آم اور روده پشتمل غذا کم از کم ایک ماہ تک استعمال کرتے رہنے سے صحت بہتر بن جاتی ہے۔ جسم کو طاقت ملتی ہے وزن میں اضافہ ہوتا

ہے۔ اگر وزن میں تیزی سے اضافہ کرنا مقصود ہوتو روزانہ چار پانچ لٹر دودھ اور تین چار کلوگرام آم استعمال کرنا چاہیں ۔ جب غذا استعمال کریں تو کوئی دوسری غذا استعال نہیں کرنی چاہئے۔ سے آم کے نو خیز پتے ذیابیطس کے مرض میں مفید خیال کئے جاتے ہیں ۔ تازہ پتوں کو رات بھر پانی میں بھگو رکھنے کے بعد

کے وقت پتوں کو چھوڑ کر نکال دیں۔ پانی کو چھان کر بطور شربت پی لیں۔ روزانہ ہی شراب پیتے رہنے سے ذیابیطس کے مرض پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ تازہ پتوں کو سائے میں سکھا کر سفوف بنا کر محفوظ کر لیں اور دن میں دو بار بقدر نصف چائے کا چمچ پانی کے ساتھ استعال کرنے سے بھی ذیابیطس کے مرض میں نافع ہے۔

می آم کے موسم میں آموں کی گٹھلیاں جمع کر کے سائے میں خشک کر کے سفوف بنالیں۔ بوقت ضرورت اسہال کے مریض کو ڈیڑھ دو گرام سفوف شہد کے ساتھ یا بغیر شہد کے استعمال کرنے سے اسہال ختم ہو جاتے ہیں۔ آم کے تازہ پھولوں کا رس (جوس)

دہی کے ساتھ ایک یادو کے استعمال کرنا بھی اسہال میں مفید رہتا ہے۔ الم آم کی ملی عورتوں کے اعضائے تولیہ سے تعلق رکھنے والی کتنی ہی بیماریوں کا موثر علاج ہے۔ ہندوستان کے نامور ڈاکڑ

امان اللہ کہتے ہیں کہ آم کی تھی کی تخت جلد الگ کر کے اندر سے حاصل ہونے والی گری کا پیسٹ ایک چی بر اندام نہانی کے اندر لگانے سے لیکوریا شرم گاہ کی سوزش کا کامیاب علاج ہے۔ نیز زیادہ زچگیوں سے متاثر و فرج کی دیوار میں بھی معمول پر آ جاتی ہیں۔ اگر یہی پیٹ ہمبستری سے آدھا گھنٹہ پہلے فرج میں لگادی جائے تو کنوارے پن کی سی کیفیت پیدا ہو جانی ہے۔

خون کی کثرت کو روکنے کے لئے تازہ آم کی چھال کا جوں حیض کے دوران استعمال کرنا مفید ہے۔ اس جوں کے استعال سے لیکوریا رحم سے خون رسنا پیپ کا رسنا اور سفید سیال کا رسنا بند ہو جاتا ہے۔ یہ جوں انڈے کی سفیدی یا کسی بھی درخت کی گوند اور تھوڑی سی افیون کے ساتھ دیا جاتا ہے۔ اس کے متبادل کے طور پر چھال

سے کشید کیا گیا سیال 10ملی لیٹر اور پانی 110ملی لیٹر ملا کر گھنٹے دو گھنٹے کے بعدایک چائے کا چمچہ چلاتے رہنا مفید ہے۔ و آم کی چھال گلے کی بیماریوں اور خناق کے علاج میں بڑا اچھا اثر دکھاتی ہے۔ اس کا سیال بیرونی مالش اور غراروں کے لئے بھی استعمال کرنا مفید ہے۔ غراروں کے لئے 10ملی لیٹر چال کو125 ملی لیٹر پانی میں ابال کر مشروب بنایا جاتا ہے۔ الہ آم کے پھل کو شارخ سے توڑتے وقت شاخ سے جو رس نکلتا ہے اس کو چھو کے ڈنک پر لگایا جائے تو دردور ختم ہو جاتا ہے۔ پیروں کا شیشے کی بوتل میں جمع کر کے رکھ لیا جائے تو ضرورت کے وقت کام آتا ہے۔ شہد کی مکھی کے ڈنک پر بھی یہی رس لگانا قا نده مند ہے۔ احتياط:

کے آم زیادہ مقدار میں استعمال کرنا نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ ان کے کثیر استعال سے گلے کی خراش بھی پیچش اور پیٹ کے توت کا سبب بن جاتا ہے۔ ایک دن میں صرف ایک یا دو کچے آم سے زیادہ نہیں کھانے چاہئیں۔

کے آم کھانے کے فورابعد پانی نہیں پینا چاہئے۔ پانی پینے سے دس منجمد ہو جاتا ہے اور خراش کا باعث بن جاتا ہے۔ پچھے آم کے پل کوشاخ سے توڑنے پر دودھیا سیال رستا ہے۔ یہ سیال قابض ہونے کے ساتھ ساتھ خراش دار ہوتا ہے۔ اس لئے سبزآم

کھانے سے پہلے یہ سیال نہ نکا لنے سے منہ گئے اور غذائی نالیوں میں خراش پیدا ہو جاتی ہے۔ ایک سیال رل کوآم چوسنے سے پہ اچھی طرح دبا کر نکال دینا چاہئے۔

: أم زیادہ استعمال کرنے سے کئی بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں جیسے بشر نکھوں کی پیاریاں فسادخون اور معیادی بخار وغیرہ۔ زیادہ آم کھانے والے بچوں کو جلد کی بیماریاں لال ہو جانی ہیں۔

Leave a Comment